سلام قیامت تک کی امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے

سلام قیامت تک کی امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے

 اسلام ایک ایسا دین ہے جو قیامت تک آنے والی پوری انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل و مکمل هدایت ہے۔ نبی کریم ؐ بعثت کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ ایک قوم یا ایک علاقے کو روشنی دکھائی جائے، بلکہ پوری دنیا کو امن ،محبت ،عدل، بھائی چارہ اور انسانیت کا ایسا پیغام دیا جائے جو ہر دور کے حالات کے لیے رہنمائی فراہم کرے۔ 

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : نبی ! ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ اس ایک آیت میں اسلام کے پیغام کی بنیاد اور نبی کریمؐ کے مشن کی اصل روح بیان کر دی گئی ہے۔ 

آج جب دنیا مختلف فتنے، انتشار اور اختلافات سے دوچار ہے، اور مختلف قومیں و مذاہب ایک ہی ملک یا معاشرے میں آباد ہیں، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ  ہم رسول اللہ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ان تعلیمات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ امن و صبر، عدل و مساوات محبت و انسانیت اور بھائی چارے پر زور دیتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی ناپسندیده یا گستاخانہ واقعہ پیش آئے تو اس کا جواب احتجاج یا تشدد کی بجائے آئینی و عدالتی دائرے میں رہ کر دینا چاہیے ۔   یہی اسلام کی تعلیم اور یہی باشعور معاشرے کی نشانی ہے۔

نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ میں ہمیں بے شمار ایسے مواقع ملتے ہیں جہاں آپ نے ظلم و زیادتی اور گستاخی کا سامنا کیا، لیکن اس کے جواب میں صبر، حکمت اور عدل کو اختیار فرمایا۔ مکہ مکرمہ کے تیر سالہ دور میں مشرکین نے آپؐ صحابہ کرامؓ کو جسمانی ، ذہنی اور معاشی اذیتیں دیں۔ گالیاں دیں، پتھر مارے، قید کیا، بائیکاٹ کیا، یہاں تک کہ قتل کی سازشیں بھی کیں۔ لیکن آپؐ نے کبھی جلوس، ہنگام یا تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ صبر و برداشت اور حکمت کے ساتھ قرآن و دعا کے ذریعے اہل ایمان کو مضبوط رکھا۔

قرآن میں فرمایا گیا: يعني نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، تم( بدی کو) اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو”۔ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ برائی کا جواب بھی اخلاق اور بھلائی سے دینا چاہیے، نہ کہ مزید برائی سے۔ اسی اصول کی روشنی میں اگر کوئی شخص یا گروہ نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صبر، حکمت اور آئینی طریقے سے جواب دیں۔ 

نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ میں اس کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ جب طائف کے لوگوں نے آپؐ کو پتھر مارے اور لہو لہان کر دیا تو فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر آپ حکم دیں تو ان سب کو ہلاک کر دیا جائے ۔ لیکن رحمت للعالمین نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے اللہ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے۔ یہ الفاظ آج کے مسلمانوں کے لیے قیامت تک ہدایت ہیں کہ گستاخی کے جواب میں غصہ اور تشدد کے بجائے صبر ، دعا اور حکمت کو اپنایا جائے۔

اسی طرح مکہ میں جب لوگوںنے آپؐ  کو برا بھلا کہا تو آپؐ نے ان کے لیے بد دعا نہیں کی بلکہ فرمایا: (اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے، وہ نہیں جانتے)۔ یہ طرز عمل مسلمانوں کے لیے عملی مثال کہ ہمیں جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ عقل و حکمت اور صبر کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے ۔

اسلام عدل پر بہت زور دیتا ہے، قرآن پاک میں کہا گیا ہے: “اللہ عدل اور احسان میں بہت بڑا ہے۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک دنیا میں عدل باقی ہے، دنیا باقی ہے اور جب عدل ختم ہو جائے گا تو دنیا بھی ختم ہو جائےگی۔ اس سے ظاہر ہے کہ عدل کے بغیر نہ دین قائم رہ سکتا اور نہ دنیا۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہر مسئلے کا حل عدل و انصاف اور قانونی راستے سے نکالیں۔

احتجاج اور تشدد کے نقصانات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایسے اقدامات اسلام کے پرامن پیغام کو نقصان پہنچاتے ہیں اور دنیا کے سامنے مسلمانوں کا غلط تاثر پیدا کرتے ہیں۔ احتجاج اکثر تشدد میں تبدیل ہو جاتا ہے ، املاک کو نقصان پہنچتا ہے، اور اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا  ہے۔ اس کے برعکس آئینی اور عدالتی اعتماد کے ذریعے مسلمان جب اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ایک باشعور اورباوقار طرزِ عمل ہوتا ہے۔ 

نبی کریمؐ نے اپنی تعلیمات میں بار بار امن و بھائی چارے پر زور دیا آپؐ نے فرمایا: (صحيح بخاری): مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں ایک سچا مسلمان وہی ہے جو دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے بلکہ ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرے۔ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین نے بھی ہمیشہ عدل اور آئین کو بنیاد بنایا ہے ۔ جو مسلمانوں کے لیے ایک واضح رہنمائی ہے۔ عدل اور قانون پر اعتماد ہی اسلام کی اصل روح ہے ۔ عصرِ حاضر میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سچی محبت رسولؐ کا ثبوت صرف نعروں یا احتجاج کے ذریعے نہ دیں بلکہ عملی زندگی میں رسول اللہؐ کی تعلیمات کو اپنا کر دیں ۔

نبی کریمؐ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں ۔ حضورؐ نے ہمیشہ معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ مدینہ میں جب مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے، تو آپؐ نے “میثاق مدینہ” کے ذریعے ایک آئینی اور عدالتی نظام قائم کیا جس میں سب کو برابر کا حق دیا گیا۔ 

ہمارے ملک میں آج بھی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ساتھ رہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جب ہمارے ہندو بھائی اپنے تہوار مناتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ سماجی کردار اور ضبط کا مظاہرہ کریں۔ یہی طرز عمل نبی کریمؐ کی سچی محبت ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ اگر مسلمان اپنے ہم وطنوں کے لیے نفع بخش بنیں، ان کی خوشیوں میں شامل ہوں، ان کے دکھ درد میں ساتھ کھڑے ہوں، تو یہی حقیقی محبت رسولؐ اور اسلام کا اصل پیغام ہے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی کہ مسلمان دنیا کو یہ دکھائیں کہ نبی کریمؐ کی تعلیمات صرف مذہبی عبادات تک محدود نہیں بلکہ وہ پوری انسانیت کے لیے خیر و سلامتی کا پیغام ہیں۔ اگر ہم اپنی عملی زندگی میں ان تعلیمات کو نافذ کر دیں تو دنیا خود دیکھے گی محمدؐ واقعی رحمت للعالمین ہیں۔

اختتام پر یہی کہنا کافی ہے کہ نبی کریمؐ کی محبت صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم احتجاج اور تشدد سے دور ہیں، آئین اور عدلیہ پر اعتماد رکھیں، عدل و انصاف کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور دنیا کے سامنے اسلام کا پرامن چہرہ پیش کریں ۔ یہی حقیقی عشق رسولؐ اور یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »