قرآن اور سنت کے تناظر میں وقف کی دینی تشریح

قرآن اور سنت کے تناظر میں وقف کی دینی تشریح

 قرآن و سنت میں وقف (صدقہ جاریہ) کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وقف کا مطلب ہے کسی چیز کو اللہ کی راہ میں خاص مقاصد کے لئے مخصوص کرنا، جیسے کہ مساجد، مدارس، یا دیگر فلاحی کاموں کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کو علم، صحت، اور دیگر ضروریات میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ قرآن میں وقف کی اہمیت: اللہ کی رضا کے لئے: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صدقہ دینے کی اہمیت پر زور دیا ہے، اور وقف کو بھی اسی زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: سورۃ البقرہ: آیت نمبر 267: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے پاکیزہ مالوں میں سے خرچ کرو۔” وقف کرنا ثواب کا ذریعہ ہے*: قرآن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جو شخص اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اس کے لیے عظیم اجر ہے۔

سنت نبوی میں وقف کی اہمیت:وقف کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی مثال: آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے دور میں کئی بار وقف کے ذریعے معاشرتی بہتری کے کام کئے۔ آپ نے کئی زمینون اور باغات کو اللہ کی راہ میں وقف کیا تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔وقف کے سلسلے میں مسلمانوں کی ذمہ داری:حدیث میں آتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں وقف کیا، وہ قیامت کے دن ان کے لئے شفاعت کا سبب بنیں گے۔اس لیے وقف ایک نہایت اہم عمل ہے جو مسلمان معاشرے میں فلاح و بہبود کے لئے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی ترقی اور حمایت سے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی خیر و برکت حاصل ہوتی ہے۔ 

وقف کے سلسلے میں عدالت کا حالیہ عبوری فیصلہ: عبوری فیصلے اس وقت دیے جاتے ہیں جب عدالت کو یقین ہو کہ اصل سماعت میں ایسا فیصلہ کیا جا سکتا ہے جو وقف کی حقیقی نوعیت اور مقاصد کے مطابق ہو۔ اس طرح کے فیصلے کے ذریعے عدالت یہ یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ وقف کا بنیادی مقصد متاثر نہ ہو اور متعلقہ حقوق کی حفاظت کی جا سکے مندرجہ ذیل سطور میں ہم وقف کے سلسلے میں عدالت کے عبوری فیصلہ کا جائزہ لیں گے۔

عدالت کے ذریعے دیے گئے عبوری فیصلے کو کچھ مسلم تنظیموں نے اپنی جیت قرار دیا ہے لیکن بہت سی مسلم تنظیمیں پوری طرح سے مطمئن نہیں ہے اور پارلیمنٹ کے ذریعے بنائے گئے قانون کے کچھ شقوں میں بھی ان کو ابھی اعتراض باقی ہے اور اس کے لیے وہ  آنے  والے دنوں میں شدت کے ساتھ تحریک چلانے کی‌تیاری کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت کے ذریعے بنائے گئے ایکٹ کے سیکشن تین (آر ) سے متعلق جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی اپنی زمین یا کوئی بھی جائیداد وقف کرنے سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کم سے کم پانچ سالوں سے اسلام پر عمل کر رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بنایا گیا  ایکٹ کا یہ شق اپنے اپ میں بہت ہی زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس کا تعلق ایک مسلمان کی طرف سے وقف کرنے کی بنیاد سے متعلق ہے حکومت کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے کہ کون کس مذہب کا پیروکار ہے سوائے اس کے کہ کوئی آدمی خود یہ اعلان کرے کہ میں فلاں مذہب کو مانتا ہوں ۔ عدالت نے اس شق کو خارج کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کا دوسرا عبوری فیصلہ سیکشن 3 (سی) سے متعلق ہے جس میں ضلع کلکٹروں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وقف کے طور پر دعوی کی گئی جائیدادیں حکومت کی ہیں یا مسلمانوں  کی طرف سے وقف کی گئی ہیں اس کا تعین ضلع کلیکٹر اپنے صوابدید کی بنیاد پر کریں- عدالت نے  اس شق کو بھی خارج کر دیا ہے۔اس بات کو یقینا  مسلم عرضی گزاروں کی جیت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں  بیوکریسی کے اختیارات کو کم کر دیا ہے اور وقف املاک پر قبضہ کرنے کے حکومت کے مستقبل کے کسی بھی منصوبے پر روک لگا دی ہے –

اسی طرح اپنے فیصلے کے تیسرے حصے میں سپریم کورٹ نے سینٹرل وقف کونسل اور  ریاستوں کے بورڈ کی فیصلہ سازی کی طاقت کو توازن بخشا ہے اور غیر مسلم اراکین کی تعداد کو کم سے کم کر کے اقلیت کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ جو وقف کے لئے  خوش آئند ہے ۔

وقف بائیوزر کے سلسلے میں  عدالت نے  پرانے وقف‌ایکٹ  کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سن ١٩٢٣ سے لیکر حالیہ دنوں تک سارے وقف ایکٹ اس بات کا مطالبہ کرتا رھا ہیکہ وقف جائیدادوں کا مکمل طور پر رجسٹر کرایا جائیں اور  اس بات کا واضح احکامات تھے کہ اگر متعلقہ جائیدادوں کا کاغذات وقف ڈیڈ دستیاب نہیں ہونے کی صورت میں بھی رجسٹریشن کی کاروائیاں مکمل کی جاسکتی تھی ،  لیکن مسلم تنظیمیں اور  اوقاف  اس سلسلے میں تساہلی اور بے پرواہی کا ثبوت دیا۔ دینی اعتبار سے بھی یہ عمل غیر اسلامی ہے ، کیونکہ کے قرآن پاک واضح طور ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین تو اسے لکھ لو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے تو اسے لکھ دینا چاہیے ( سوره البقرة اية ٢٨٢) .  اس بات كو تسليم كرنا چاہیئے کہ عدالتی نظام  اصول و ضوابط سے چلتا ہے جو قانونی شقوں کے لحاظ سے ساتھ ساتھ پارلیمانی قانون سازی کا بھی احترام کرتا ہے۔ 

اسی طرح اخیر میں عدالت نے ان جائیدادوں کے لیے جو تاریخی عمارتوں کی شکل میں ہیں اور جو آثار قدیمہ کے تحت آتی ہیں اس میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ عدالت کا بورا عبوری فیصلہ کچھ حد تک وقف جائیداد کی حفاظت کے حق میں ہیں اور کچھ حد تک مسلمانوں کے لیے مایوس کن ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں مسلم تنظیمیں کیا لائحہ عمل بناتی ہیں اور کس طرح اپنی تحریکوں کو  کھڑا کرتی ہیں اور اپنے مطالبوں کو عدالت سے منوانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

محمد اعجازالرحمان شاہین قاسمی صاحب ورلڈ پیس آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ مضمون میں ظاہر کیے گئے خیالات آپ کے ذاتی ہیں۔ اس سے ہمارے انتظامیہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »