امن کی حقیقی طاقت جدوجہد میں نہیں بلکہ امن میں ہے، محمد سے محبت ہے تو امن سے رہو

امن کی حقیقی طاقت جدوجہد میں نہیں بلکہ امن میں ہے، محمد سے محبت ہے تو امن سے رہو

انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ معاشرے جو امن، محبت، رواداری اور ہے بھائی چارے پر مبنی ہوتے ہیں، وہی ترقی کرتے ہیں، ان میں خوشحالی آتی اور وہ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ اس کے برعکس، فساد، جنگ، نفرت اور ظلم پر کھڑے معاشرے دیر سویر زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے اپنے ابتدائی دنوں سے ہی امن اور سکون کو اصل طاقت قرار دیا ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا پیغام سراسر امن کا پیغام ہے۔ قرآن پاک نے امن کو ایمان کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (سورة الانعام، آیت نمبر82 )ترجمہ : جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک یا گناہ) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ” ایک اور جگہ ارشاد ہے : (سورة يونس، آیت نمبر 25 )ترجمہ : “اور اللہ سلامتی (امن) کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ اسلام کا مطلب ہی “سلامتی” ہے، اور “مسلم” وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔

حضرت محمدؐ کی سیرت مکمل طور پر ،امن ،رواداری معافی اور بھلائی سے بھرپور ہے۔آپ نے فرمایا:  (صحیح بخاری)ترجمہ: “مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے : (صحیح  مسلم)ترجمہ: آپس میں سلام (امن) کو عام کرو۔ سلام کا مطلب ہی امن ہے اور اسلام نے اس کے ذریعے معاشرے میں محبت اور سلامتی پھیلانے کا پیغام دیا ہے۔

صحاب کرام رضی اللہ عنہم) نبی کی تربیت یافتہ جماعت تھی۔ انہوں نے نہ صرف خود امن قائم رکھا بلکہ دوسروں کے لیے بھی امن کے علمبردار بنے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتنہ ارتداد اٹھا، تو انہوں نے حکمت اور صبر سے امن قائم رکھا اور خلافت کو مضبوط کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں انصاف کا ایسا نظام قائم ہوا کہ غیر مسلم بھی اسلامی انصاف کی پناہ لیتے تھے۔ ایک مشہور واقعے میں انہوں نے ایک مسلمان کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ )نے اپنے مخالفین سے بھی حسن سلوک کیا اور فسادات کے دوران امن کے لیے قربانیاں دیں۔

برصغیر (ہند) میں اسلام کا پیغام پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ اولیائے کرام تھے۔ انہوں نے محبت، امن اور رواداری کا پیغام دیا۔ خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) کا مشہور قول ہے : اگر کوئی تمہیں کانٹوں کا ہار پہنائے تو تم اسے پھولوں کا ہار پہناؤ۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں۔ بابا فرید (رحمۃ اللہ علیہ ) کی شاعری بھی امن صبر اور برداشت کا درس دیتی ہے : فریدا بری دا بھلا کر غصہ من نہ دھیر “ترجمہ: اے فرید برائی کے جواب میں بھلائی کرو اور دل میں غصہ نہ رکھو۔”

آج کے حالات میں جب I Love Mohammad ” جیسے جملے کہنے پر تنازع ہو رہا ہے، تو یہ کافی سوچنے والی بات ہے۔ ملک بھر میں اس معاملے پر ہو رہے احتجاج کے درمیان ہمارے سامنے دو راستے ہیں ایک جذباتی رد عمل، توڑ پھوڑ نفرت اور انتقام کا۔دوسرا پرہیزگاری ،احتیاط، قانونی چاره جوئی، علمی اور اخلاقی پیغام کا ۔ پہلا راستہ قلیل مدتی غصے کی تسکین تو دیتا ہے، لیکن اسلام کو بدنام کرنے اور ہماری قوم کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ وہی ہے جو نبیؐ  نے مکہ اور طائف کی سختیوں میں اپنایا۔ یہی راستہ عزت کامیابی اور دلوں کی فتح کا ہے۔

اسلام کی بنیاد ،امن انصاف اور بھلائی پر ہے۔ اگر ہم رد عمل میں تشدد اور نفرت کا راستہ اپنائیں گے، تو یہ دشمنوں کی کامیابی ہوگی۔ اس لیے ہمیں قلم، عدالت، علم اور دلیل اور پرہیزگاری سے قانونی راستہ اپنانا چا ہیئے۔ یہی نبیؐ کی حکمت ہے، یہی صحابہ کا راستہ ہے، اور یہی ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

 جہاں امن ہوتا ہے، وہاں تعلیم کاروبار تحقیق اور تہذیب سب پنپتے ہیں۔ دل امن ہی میں مطمئن ہوتا ہے۔ قرآن میں فرمایا: (سورۃ الرعد آیت 28  )ترجمہ: “خبردار! اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ امن دلوں کو جوڑتا ہے ، ظلم دلوں کو توڑتا ہے، جہاں انصاف ہوتا ہے، ویں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

 اس وقت ضرورت اسی بات کی کہ ہم جذبات میں آ کر تشدد کے بجائے صبر، حکمت اور قانونی طریقے سے اپنے حق کا دفاع کریں۔ تشدد وقتی غصے کا اظہار ہوتا ہے لیکن نتائج ہمیشہ نقصان دہ اور قوم کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ جب ہم پر ہیزگاری اور قانونی راستہ اپناتے ہیں، تونہ صرف ہمارا مؤقف مضبوط ہوتا بلکہ انصاف کی راہ بھی آسان ہو جاتی ہے۔ اسلام ہمیشہ انصاف، صبر اور امن کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یہی طریقہ معاشرے

کی بہتری اور دین کی عزت کا ضامن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »