گوتم چودھری
حضرت محمد ﷺ نے عرب کی پاک سرزمین مکہّ میں ایک اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ایمان والوں کے لیےاللہ نے ایک پیغام بھیجا ہے، ’’اے لوگوں،ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں الگ ۔الگ لوگ اور قبیلے دیےم تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘(قرآن 49:13)پاک قرآن کی یہ آیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہےکہ اللہ نے ہر انسان کو برابر حق دیا ہے۔ اللہ شخص، فرقہ برادری، زبان ، علاقہ میں فرق نہیں کرتا ہے۔ اس کی نظر میں سب برابر ہے۔
مکہ فتح کے بعد ، حضرت محمدﷺ نے حضرت بلال کو مکہ کے اوپر سے اذان دینے کے لیے کہا۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہےکہ بلال افریقہ کا ایک غلام تھا باوجود اس کے حضرت محمد نے اسے اذان دینے کے لیے کہاتھا۔ اس کے پیچھے کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر محمد نے مسلمانوں کو یہ دکھانے کے لیےایسا کیا کہ اسلام ذاتی، فرقہ، برادری، صنف، قبیلے وغیرہ کے بیچ فرق نہیں کرتا ہے۔ اس پش منظر کو دیکھتے ہوئے، یہ یقین کرنا مشکل ہوگا کہ بہار کے ایک اعلیٰ دانشور مولانا کو ’’ڈوموا مولانا‘‘کنیت دیا گیا اور مسلم معاشرے سے خارج کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوںنے گنگوا ڈوم نامک ایک مہتر کے گلاس سے پانی پی لیا تھا ۔ مولانا کے خلاف اونچی ذاتی کے مسلمانوں کے ذریعہ فتوا جاری کر مسلمانوں کو ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
ڈوموا کنیت والا یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ مولانا عتیق الرحمنٰ عروی تھے،جو پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کے ساتھ ۔ساتھ اس وقت مسلم لیگ کی مخالفت کرنے والوں کی بھی نمائندگی کیے تھے۔ مولانا عتیق الرحمنٰ کی پیدائش 1903میں بہارکےڈہری آنسون کے باراں کلاں گائوں میں ایک منصوری (دھنیا)خاندان میں ہوئی تھی۔
عتیق الرحمنٰ نے اپنی بنیادی تعلیم مدرسہ معین الغربہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم دارلعلوم دیوبند سے حاصل کی۔ملک کو فرنگی حکومت سے آزاد کرانے کے لیے انہوں نے بہار کے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے گورکھپور ، بنارس ،دہرادون ، لاہور، کراچی اور پشاور تک کا دورا کیا۔ انہوںنے ملک بھر میں تحریک آزادی کے پیغام کو ہر گھر میں پہونچانے کےلیے کئی تقریرکیے۔ بعد میں انہیں انگریزوں نے دہرادون سے گرفتار کر لیا اور لاہور بھیج دیا۔ جیل سے رہا ہونےکے بعد مولانا عروی واپس بہار آ گئے اور انگریزی حکومت کے خلاف عوام کو لامبند کرنے لگے۔ ان کے قریبی دوستوں میں جیپرکاش سنگھ، گدری سنگھ یادواور جگدیش سائو شامل تھے۔
سال 1937میں مسلم لیگ نے پاکستان کے وجود کے لیے ایک تجویز منظور کیا اور مسلامانوں سے یوم پاکستان کو دھوم دھام سے منانے کے لیے کہا۔ حلانکہ مولانا عروی جیسے سچے وطن پرست نے اس کی کڑی تردید کی اور جناّ کی دو قومی نظریہکی پرزور مخالفت کی ۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ اسلام کبھی بھی مذہب کی بنا پر ملک کے بنٹوارے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ گنگا-جمنی تہذیب اور ہندوستان کے تصوّر میں ایک سچے مذہبی ہو نے کے ناطے ، مولانا عروی نے اپنے دو بیٹوں کو موہن لال، سوہن لال کے طور پر کنیت دیا۔
اونچی ذاتی کے مسلمانوں کی نمائندگی کر نےوالے مسلم لیگ کے ممبر، مولانا عروی کے برابری میں یقین کرنے کی وجہ سے، ان سے نفرت کر تے تھے۔ مولانا کو پکا یقین تھا کہ سبھی اللہ کی اولاد ہیں ، چاہے وہ کسی بھی ملک، خاندان یا فرقہ کے ہوں ۔ اللہ نے سب کچھ بنایا ہے، چاہے جولاہا-دھنیا ہو یا شیخ-مغل، سیّد یا پٹھان۔
آزادی مجاہد ، مساوات کے پیروکار اور عظیم مبلغ ہونے کے باوجود مولانا عروی کا نام اور شراکت تاریخ کے کتابوں میں کبھی وہ جگہ نہیں حاصل نہیں ہو سکا جو جگہ دوسرے اونچی ذاتی کے مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ جب بھی مسلم آزادی مجاہد کا چرچہ کیا جاتا ہے، اونچی ذاتی کے مسلمانوں کا ہی نام لیا جاتا ہےاور مولانا عروی جیسے مٹّی کے سچّے بیٹے کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔ یہ اس ملک اور مسلم قوم کی بدقسمتی ہے کہ بیکورڈ ذاتی کے مسلمانوں کی آبادی 80فیصد سے زیادہ ہے لیکن نمائندگی کے معاملے میںیہ طبقہ پیچھے ہے۔ یہ نہ صرف مذہبی نظریے سے بلکہ سیاسی، اقتصادی اور کم سے کم ثقافتی نظریے سے بھی۔
سچ پوچھیے تو آج کا جو بھارت آپ دیکھتے ہیں اس میں اس قوم کی نمایا کردار ہے۔ اس طبقے میں کاریگر ہیں جو ملک کی ترقی کے لیے دن-رات محنت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو پلمبر کی ضرورت پڑتی ہے تو اسی طبقے کا کوئی نوجوان وہاں پہلے پہنچتا ہے۔ کسی کو بجلی کا کام پڑتا ہے تو یہی معاشرہ اسے سروس مہیّا کراتا ہے۔ ہنرمند یہ معاشرہ ملک کی کھپت کا 40 فیصد کپڑا بنتا ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ وہ مقامی مسلامان ہے جو ملک کو ایک رکھنے میں اور آپسی رشتوں کو بنّے میں اپنی پوری زندگی لگا دیتا ہے۔ اسے نہ تو کبھی بھارت کے اکثریت ہندئوں نے اہمیت دیا اورنہ کبھی اونچے طبقے کے مسلمانوں نے عزت دی ۔ حضرت محمد ﷺکو ماننےوالے اگر تھوڑی مہربانی کرے تو یہ طبقہ نہ صرف بھارت کو ترقی یافتہ بنا سکتا ہے بلکہ پوری دنیا میں بھارت کو اعلٰی مقام دلا سکتا ہے۔