گوتم چودھری
وہ شخص جس میں بے پناہ طاقت ہوتی ہے لیکن وہ حالات کے مطابق اپنے رویے اور سوچ میں لچک نہیں لاتا، ایسا شخص نامساعد حالات میں ٹوٹ جاتا ہے، ایسے شخص کی کامیابی میں ہمیشہ شک رہتا ہے کیونکہ ایسا شخص حالات کے مطابق اپنے طرز عمل میں سمجھوتوں کو شامل نہیں کرتا ہے۔ جب کہ دوسرا شخص وقت اور حالات کے مطابق اپنے طرز عمل اور سوچ میں سمجھوتوں کو شامل کرتا ہے اور اپنے رویے میں لچک برقرار رکھتا ہے۔ ایسے شخص کی کامیابی میں کوئی شک نہیں۔ وہ اپنے حریف کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس کی وضاحت کریں تو اسے ہیرو کے جیسا لچک کہا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا سمجھوتہ سب سے شاندار اور تاریخی مثال ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے بدامنی بنی ہوئی۔ اس کی وجہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ ہے۔ حال ہی میں حماس کے یکطرفہ حملے کے بعد تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ اس معاملے پر دنیا کے کئی ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس تنازعہ میں بھی ہندوستان نے اپنی روایتی خارجہ پالیسی کے مطابق برتاؤ کیا اور فلسطین کے عام لوگوں کے مفاد کے لیے تنازعہ کو فوری طور پر روکنے کی وکالت کی۔ ہندوستان ایک کثیر الثقافتی ملک ہے، اس لیے ہندوستان کو اپنے اندرونی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی رویے کو اپنانا ہوگا۔ فلسطینی عوام کے تئیں ہندوستان کی مہمان نوازی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کے انچارج گروپ حماس کے بارے میں ہندوستانی مسلمانوں کا کیا نظریہ ہونا چاہیے؟ یہ سوال اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب حماس کے رہنما ورچوئل میڈیم کے ذریعے ہندوستان کی کچھ مسلم تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ فلسطین کے لیے ہندوستان کی حمایت وہاں کے عام لوگوں کے لیے انصاف، خود ارادیت اور دو ریاستی حل کے اصولوں سے وابستگی ہے۔ ہندوستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے 1988 سے فلسطین کو سرکاری طور پر ایک ملک کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ہندوستانی سفارت کاروں نے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے کئی دیگر فورمز پر فلسطینی قراردادوں کی حمایت کی ہے۔ ہندوستان نے وقتاً فوقتاً فلسطینی عوام کو مالی اور انسانی امداد بھی فراہم کی ہے۔ حالیہ تنازع میں بھی ہندوستان نے اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو انسانی امداد فراہم کی ہے۔ فلسطینی طلباء کے لیے اسکالرشپ اور ان کی شخصیت کی نشوونما ہندوستانی غیر ملکی سفارت کاری کا ایک حصہ ہے۔
غزہ میں حماس کی حکومت کے دوران فلسطینی سیاست واضح طور پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ فلسطینی گروہوں کے درمیان تنازعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پرتشدد بھی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں فلسطین کے اندر سیاسی اتحاد ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ کامیاب امن مذاکرات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ایک عالمی عقیدہ ہے کہ کسی ایک گروہ کی حمایت کرنا غیر جمہوری ہے۔ کسی مخصوص گروہ کی حمایت آئینی جمہوریت اور خود مختاری کے بنیادی اصولوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ دوسری طرف حماس نے بہت سے امن اقدامات کو مسترد کرنے کے علاوہ اسرائیل کے وجود کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ امن کے اقدامات کو سبوتاژ کرنے والی تنظیم کی حمایت سے پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ حماس نے امن معاہدوں کو مسلسل مسترد کیا ہے۔ ایسی صورت حال میں حماس کی حوصلہ افزائی سے علاقائی استحکام خراب ہو سکتا ہے اور تشدد کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
یہاں ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جب حماس جیسا غیر ریاستی عنصر، جس کی عالمی پہچان نہیں، تنازعات کے علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس سے عام لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ حماس جیسی تنظیموں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ دو گروہوں کے درمیان لڑائی کے بجائے خالصتاً انسانی حقوق کی لڑائی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اور عالمی برادری حماس جیسے گروہوں کی حمایت کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں۔ چونکہ ہندوستانی حکومت فلسطینی عوام کی حالت زار سے ہمدردی رکھتی ہے، اس لیے ہندوستانیوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ حماس ملیشیا کے ساتھ وابستہ ہونے کے بجائے سفارتی اور پرامن حل کو فروغ دیں، جسے اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطین اسرائیل تنازع کا واحد حل ایک پرامن تصفیہ ہے، جس میں دونوں ملکوں کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اگر اسرائیل یہ سوچ رہا ہے کہ ہم فلسطین کو تباہ کر دیں گے تو یہ ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر حماس یا بنیاد پرست اسلامی مفکرین یہ سوچ رہے ہیں کہ اسرائیل کو یہاں سے بھگا دیا جائے گا تو یہ بھی فی الوقت ممکن نہیں۔ اس لیے دونوں فریقوں کو لچکدار رویہ اپنانا ہو گا۔