گوتم چودھری
ان دنوں پوری دنیا میں سعودی عرب کی جدید کاری پر تبادلہ خیال ہور رہا ہے۔ اگرچہ اس جدید کاری کے بارے میں کچھ روایتی مفکرین کی جانب سے سعودی عرب کی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، لیکن بیشتر مفکرین نے سعودی کی تعریف کی ہے۔ ان مفکرین میں مغربی ممالک کے مفکرین شامل ہیں اور کچھ ایسے مفکرین بھی ہیں جو عالم اسلام سے اپنا تعلق رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں پائے جانے والے جدید کاری پر اکیڈمک طور پر بھی بحث کی جارہی ہے۔ اکیڈمک پنڈتوں کی بحث و مباحثے میں اکثر یہ بات منظر عام پر آتے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے مغرب نے مشرق وسطی کے ممالک کو اپنی طرح سے تبدیلی کیلئے مجبور کر دیا ہے مثال کے طور پرجدید کاری کا عمل شروع کرنے پر مجبور کیا ہے۔
مغربی ایشین خطے کو عام طور پر جدیدیت کے لحاظ سے روایتی اور قدیم خیال کا مانا جاتا ہے کیونکہ وہاں مذہب (اسلام) کی سماجی اور سیاسی زندگی پر گہرا اثر ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں باقی دنیا یہی جانتی ہے کہ وہاں گھر میں محدود سیاسی ماحول کے علاوہ گھر میں عدم اطمینان اور احتجاج ، صنف پر مبنی امتیاز ، آزادی صحافت پر پابندی ، مذہبی پولیسنگ ، بنیاد پرستی اور لامحدود وہابیت حاویہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے نقطہ نظر میں تبدیلی سے ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلی ہوگی۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے لبرل اسلام کو رہنمائی اصول قرار دے کر جدید کاری کا ایک عمل شروع کیا ہے۔ صرف یہی نہیں ، جس ملک نے پوری دنیا میں بنیاد پرست سوچ اور اپنی خارجہ پالیسی میں اسے شامل کر رکھا تھا ، اس نے خود کو بنیاد پرست اسلام سے دور رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ ماہرین اس کو ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لئے اپنائی گئی سوچ بتا رہے ہیں تو کچھ مغربی محکومیت کو اس کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ (محمد بن سلمان) اصلاحات اور جدید کاری کے ایک مخر حمایتی بن کر سامنے آئے ہیں۔ محمد بن سلمان نے خواتین کی گاڑی چلانے پر پابندی ختم کردی ہے ، سنیما گھر کھولنے کی اجازت دی ہے ، مذہبی پولیس کے خاتمے کا اعلان کیا ہے اور محافل موسیقی کے انعقاد کو جائز قرار دےدیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اس کی وجوہات کی وضاحت نہیں کی ہے ، لیکن مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے سعودی معیشت کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی مقامی نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ اس سے اقتدار کے خلاف جو غم وغصہ بڑھ رہے ہیں وہ کم ہونگے۔
سعودی عرب دو مسائل سے دوچار ہے۔ پہلا مسئلہ داخلی ہے۔ اقتدار کے تخت پر بیٹھے ولی عہد کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران نواز عسکریت پسند اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان دنوں حوثی دہشت گرد سعودی عرب کے معاشی اداروں کو مستقل طور پر گھیر رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد کو خدشہ ہے کہ اگر مقامی نوجوان حوثیوں کے ساتھ شامل ہو گئے تو حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہوگا۔
شاید ان مسائل کی وجہ محمد بن سلمان کی سوچ میں تبدیل کا عزم دکھ رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے لبرل اسلام کو واپس لانے پر زور دیا ہے۔ یہاں میں آپ کو یہ بتادوں کہ سعودی عرب 1979 سے پہلے اسلام کی آزاد خیال سوچ کو قبول کرتا تھا ، لیکن خود بادشاہت نے ہی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے سعودی عرب کو جنونی بنا دیا اور دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں اس کی تشہیر بھی کی۔ اس کا اثر ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، افریقی ممالک اور مغربی ایشیاء کے کئی اسلامی ممالک میں دیکھا گیا۔ اس کا آخری عروج اسلامی دہشت گردی کی شکل میں ہوا۔ عرب بہاوی سوچ کے نتیجے میں القاعدہ ، طالبان ، داعش ، بوکو حرام ، حرکت الانصار ، انڈین مجاہدین جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں ، جس نے دنیا اور انسانیت کے لئے خطرہ بننا شروع کردیا۔ حالانکہ اس کیلئے مغربی جماعت بھی اتنا ہی قصوروار ہے جتنا سعودی عرب ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اپنی حدود سے باہر انتہا پسند وہابی کے پھیلاؤ پر پابندی عائد کرتا ہے تو بڑے پیمانے پر اسلام کے نام پر دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے۔ جدید کاری کی یہ مہم بنیادی طور پر گھریلو اسلام پسند مولویوں اور ان کی تعلیمات اور عوامی طریقوں پر نگرانی کرنے پر مرکوز ہے۔
علاقائی امن و استحکام کے سلسلے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ، خانہ جنگی اور ریاستی ناکامیوں پر قابو پانے کے لئے سعودی اصلاحات عمدہ اور ناگزیر ہیں۔ اس طرح کی اصلاحات سعودی عرب کے سلسلے میں خوش آئند اقدامات ہیں۔ اس سے نہ صرف سعودی معاشی خوشحال ہوں گے بلکہ ملک کی صحت مند شبیہہ بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ سعودی عرب کی جدید کاری کا یہ عمل پوری دنیا کے لئے ایک سبق ہے ، جو گھریلو تنوع اور عالمی امن کے بارے میں سعودی عرب کی تشویش کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ جدیدیت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہابیت میں جدیدیت اور تشریح کا فقدان ہے۔ محمد بن سلمان کے جدیدیت بنانے کا عمل سیاسی طور پر قدامت پسند ممالک کے لئے ایک مثبت نقطہ نظر بھی فراہم کرتا ہے۔