گوتم چودھری
تعلیم دینے والوں کو چاہیے کہ وہ طلبہ میں جستجو کی روح، تخلیقی صلاحیت، کاروباری قیادت اور اخلاقی رہنمائی کی صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور خود ان کے لیے نمونۂ عمل بنیں ۔ “
ہندوستانی شناخت اور قومیت کے گہرے مباحث میں مولانا ابوالکلام آزاد کے الفاظ آج بھی غیر معمولی معنویت رکھتے ہیں، خصوصاً ان کا سب سے پُراثر اعلان: ” ہر بندوستانی، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان،سب سے پہلے ایک ہندوستانی ہے”۔ یہ پُراثر بیان اُس نازک مرحلے پر دیا گیا جب ہندوستان اپنی آزادی کی جدوجہد کے فیصلہ کن موڑ پر تھا ۔ یہ صرف سیاسی نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسے بنیادی اصول کی ترجمانی تھی جو ایک کثرت میں وحدت رکھنے والی، پُرامن اور ہم آہنگ قوم کی بنیاد بن سکتا ہے ۔
آزادی کی تحریک کے ایک قد آور رہنماء اور اسلامی علوم کے گہرے فہم رکھنے والے عالم نے ایک ایسے ہندوستان کا تصور پیش کیا، جہاں مذہبی شناخت اپنی جگہ اہم ضرور ہے، لیکن اسے مشترکہ ہندوستانی قومیت کے جامع پرچم تلے ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔ انہوں نے اُس دور کے علیحدگی پسند بیانیوں، بالخصوص دو قومی نظریے کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا، کیونکہ ان کے نزدیک یہ نظریہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی بنیاد اور گوناگوں ثقافت کے وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ صدیوں پر محیط باہمی اشتراک اور ساتھ جینے کے تجربے نے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ قائم کر دیا ہے، جس نے ایک مشترکہ زبان، ادب، فنون، روایات، اور حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کو بھی تشکیل دیا ۔ ان کےنزدیک یہی مشترکہ ورثہ ہندوستانی قومیت کی اصل بنیاد تھا، جو مذہبی یا ثقافتی تفریق سے کہیں بلند اور وسیع تر تھا ۔
مولانا آزاد کا ہندو مسلم اتحاد پر یقین محض سیاسی مصلحت پر مبنی نہیں تھا، بلکہ یہ اسلام کی گہری دینی سمجھ اور فکری بصیرت میں جڑیں رکھتا تھا ۔ انہوں نے دین کے آفاقی روحانی پیغام اور اس کے ظاہری مظارہ۔ یعنی رسوم و عبادات اور سماجی قوانین (شریعت) کے درمیان ایک نہایت اہم امتیاز قائم کیا۔ ان کے نزدیک ہر مذہب، بشمول اسلام، کی روح آفاقی سچائی میں مضمر ہے یعنی توحید، عدل، رحم دلی، اور نیکی کی جستجو۔ ان کا ایمان تھا کہ یہی اقدار بین المذاہب ہم آہنگی کی اصل بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔ انہوں نے اس نقطۂ نظر کی تائید خود قرآن کریم سے حاصل کی، جس کی آیات کی تعبیر انہوں نے اس طور پر کی کہ مختلف مذہبی رسوم و روایات کے تنوع کے پس پشت ایک ہی خدائی مقصد کی وحدت کو اجاگر کیا جا سکے ۔
مولانا آزاد کے نزدیک یہ دینی وسعت نظری ہی تھی جس نے انہیں ایک جامع ہندوستانی شناخت کے حق میں آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا ۔ایسی شناخت جس میں ہر فرد اپنے مذہبی عقائد پر فخر کے ساتھ قائم رہتے ہوئے، خود کو ایک ہندوستانی بھی پوری وابستگی کے ساتھ سمجھ سکے ۔ ان کے نزدیک یہ فکر ہندوستان کی تاریخی ارتقاء کا فطری نتیجہ تھی، جہاں مختلف مذہبی برادریوں نے ایک دوسرے کی ثقافت کو مالامال کیا اور مل کر ایک منفرد، ہم آہنگ اور مشترکہ تہذیب کو جنم دیا ۔ ان کا تصوران نظریات سے یکسر مختلف تھا جو ہندوستانی قومیت کو کسی تنگ مذہبی پیمانے چاہے ہندو ہو یا مسلمان۔ سے ماپنے کی کوشش کرتے تھے ۔
آزادی کے بعداس المناک تقسیم کے باوجود جس کی انہوں نے شدت سے مخالفت کی تھی۔ مولانا آزاد ایک متحد اور سیکولر بھارت کے عزم پر پوری استقامت کے ساتھ قائم رہے ۔ بحیثیتِ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم، انہوں نے ملک کی تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالااور ایک جدید نظام تعلیم کی بنیاد رکھی، جو ترقی، مذہبی و ثقافتی تنوع اور سماجی انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ انہوں نے ہمہ گیر تعلیم، مساوی مواقع اور سیکولر اقدار کی بھرپور وکالت کی، کیونکہ ان کے نزدیک ایک باخبر اور روادار شہری معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ عناصر ناگزیر تھے ۔ انہوں نے تعلیم کو سائنسی و تکنیکی ترقی کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا، اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کے عظیم ثقافتی ورثے کا تحفظ بھی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی (IITS)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور مختلف اکادمیوں جیسے اداروں کا قیام اُن کے اسی وژن کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جو فکری طور پر متحرک، ثقافتی طور پر مالامال اور مستقبل کی جانب گامزن ہو۔
مولانا آزاد کا پیغام آج بھی غیر معمولی معنویت کا حامل ہے ۔ آج جب فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا اور قومیت کے مفہوم پر نئی نئی بحثیں جنم لے رہیں ہیں ایسے وقف میں ان کا اتحاد، رواداری اور تنوع کے احترام پر زور ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہندوستان کی اصل قوت اس کی کثرت میں وحدت اور ہمہ جہتی تہذیب میں مضمر ہے ۔ مولانا آزاد کے افکار سے ایک بار پھر رجوع کرنا ہمیں اس متنوع قوم میں شناخت کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے اوران کا دانش مندی سے سامنا کرنے کا سلیقہ سکھا سکتا ہے،اور اُس اتحاد و ہم آہنگی کے جذبے کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جو ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نمایاں وصف تھا ۔ ان کی میراث آج بھی اس یقین کی صورت میں زندہ ہے کہ ہندوستان کا مستقبل سيکولرزم، شمولیت اور جمہوریت کے اصولوں کو اپنانے میں مضمر ہے جہاں “کثرت میں وحدت “محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہو۔