طا لبان کو ا فغانستان  میں  قائم ہونا ہے  تو  اسے پیغمبر محمد کے طریقے پر ہی چلنا ہوگا۔

طا لبان کو ا فغانستان میں قائم ہونا ہے تو اسے پیغمبر محمد کے طریقے پر ہی چلنا ہوگا۔

گوتم چودھری 

ابھی ابھی طالبان نے ایک بار پھر افغانستان کو اپنے قبضہ میں کر لیا ۔یہ ہونا ہی تھا ، کیونکہ طالبان ،افغانستان میں رہنے والی عوام کا قدرتی حکمران ہے۔ جو لوگ طالبان کو افغانستان سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، وہ غلط ثابت ہوتے رہیںگے۔ دوسری بات ، اگر افغانستان میں باہری دیشوں کا  محدود  دخل ہوتا ہے تو غالباً طالبان کو  تھوڑی پریشانی  ہوتی لیکن امیریکی متحد والی فوج وہاں جا کر بیٹھ گئی اور امیریکہ افغانستان کے ساتھ اس طرح سلوک کرنے لگا جیسے اس نے طالبان کو نہیں افغانستان کو ہرا  دیا ہے۔ افغانی عزت نفس عوام الناس نے امیریکی متحد ہ کے اس سلوک کو چیلینج کی طرح لیا اور پھر سے متحد ہو، ناٹو فوج کے ساتھ لڑائی

شروع کر دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

   جہاں تک اسلامی حکومت  یا شریعت قانون کی بات ہے تو افغانستان میں یہ کبھی مکمل کامیاب نہیں ہو پایا۔اگر طالبان اس قانون کو سختی سے عمل میں لانے کی کوشش کرے گا تو افغانی عوام اسے برداشت نہیں کرے گی اور پھر سے طالبان کو افغانستان سے بے دخل ہونا ہوگا۔ایک اور بات ، اسلامک حکومت یا شریعت قانون کے اپنے معنی ہیں۔ یہ جہاں بھی نافض ہوا ہے، مکمل طور پر نافض نہیں ہوا ۔سعودی عرب میں بھی اسے مکمل طور پر نافض نہیں کیا  جا سکا ہے اور اب تو بہت چھوٹ دی گئی ہے، تو طالبان حکومت میں بھی اسے نافض آسان نہیں ہوگا۔ ادھر اسلامک قانون کے بھی اپنے  نصبل عین  ہیں ۔ ہمارے  دوست عالم صاحب بتاتے ہیں ، ’’دنیا میں کہیں اسلامک قانون نافذ نہیں ہے ۔ پاکستان میں بالکل ہی نہیں ۔اگر کچھ تھا تو سعودی عربیہ میں تھا۔ ‘‘طالبان کے بارے میں انہوں نے ایک مثال کے ذریعہ بتایا ۔ انہوں نے کہا ’’ جو گھوڑا بغیر لگام سر پٹ دوڑ رہا ہے ، اس پر پہلے تو لگام لگانا مشکل ہے ۔ اگر کسی طرح لگابھی دیا تو گھوڑے کو ایک دم سے روک دینا خطرناک ہی ہوتا ہے ۔ اسی طرح تیز چلتی ہوئی گاڑی میں یکا یک بریک لگانا حادثہ کو دعوت دیناہے۔ طالبان نے وہی کیا تھا اگر پھرسے وہی کریں گے تو وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘ بے شک اسلامک قانون نافذ کریں لیکن حضرت محمدﷺ کےکہے راستے پر چل کر،نہیں تووہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘عالم صاحب کہتے ہیں ،’’حضرت محمد ؁نے نبوت کا اعلان کیا ، حرام اور حلال چیزوں فرق بتایا تو ایک بار ہی ساری چیزیں نافذ نہیں کی گئی ۔ مثال کے طور پر شراب کو لیجیے۔ پہلے انہوںنے ایمان والوں سے شراب کے بارے میں نفع نقصان  بتایا۔ پھر اسے چھوڑنے کی اپیل کی۔ تاریخ میں درج ہے کہ جب لوگوں نے شراب کی برائیوں جانی تو مکے کی گلیوںمیں ، نالیوں میں شراب بہتی دیکھی گئی۔‘‘عالم صاحب عورتوں کے بارے میںپاک قرآن کی آیتوںکی ترجمہ کرکے کہتے ہیں ۔’’عورتوں کو باہر جانے کے لیے نہیں برتی گئی ہے۔ عورتوں کو باہر نکلنے کا اسلام  نے اصول بتایا ہےکہ تم اپنے جسمکو اس طرح ڈھنک لو جس سے جسم  کا کوئی عضو ظاہر نہ ہو ۔ باہر نکلنے کے بعد ہتھیلی کھلی رہے اور پیر ،اس کے علاوہ کچھ بھی کھلا نہ رہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے ، پایل کی آواز بھی دوسروں کے کانوں تک نہ پہنچے۔اپنے شوہرکے لئے سنگار کرو دوسرا نہ دیکھے ۔ اس کی وجہ آپ کو آج دیکھنے کومل رہا ہوگا۔ کھلے پن پر عمل کرنے کا نتیجہ آج دیکھ رہے ہیں ، ہم کہاں سے کہاں چلے جارہے ہیں ۔اسلام میں خدیجہ ، فاطمہ ، زینب ، ہارون رشید کی بیوی ایسی کئی خواتین ہوئی ہیں ۔ جنہوں نے اسلام کو ترقی یافتہ بنایاہے ۔ علم دی ہیں ۔ اسلام ، علم اور انجینئرنگ سے کسی کو نہیں روکتا ہے۔ رسول پر جو سب سے پہلے قرآن کی آیت نازل ہوئی وہ پڑھنے کو لے کر ہے ۔ مثلاً ’’تم اپنے رب کے نام سے پڑھو ، جس نے انسان کو پیدا کیا ، خون کے لوتھڑے سے اور پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں انسان کو وہ چیزیں سکھائیں جو وہ نہیںجانتاتھا‘‘(سور ۃ اقرا، پارہ 30)

طالبان کو یہ سمجھنا چاہئے کی وہ اگر حقیقت میں شریعت قانون کو نافذ کرتا ہے تو اسے اسلام کے نصب العین اور اصولوں کو نہیں بھولنا ہوگا۔ اگر بھولا تو پھر پھرنگی اس پر حملہ کریں گے۔ اور انہیں بے دخل کردیا جائے گا۔ اسلام کسی پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ انسانیت اپنی جگہ اور مذہب اپنی جگہ ہے ۔ مذہب وہ چیز ہے کہ جو اس پر عمل کرے گا، اس کے مطابق زندگی گزارے گا، اس کے طرف لوگ ضرور متاثر ہوں گے۔ اس میں یہ طاقت آجاتی ہے ۔ محمدﷺ کی پوری زندگی ایمان والوں کے لئے مثال ہے ۔ بلکہ یہ کہا جائے کی وہ انسانیت کے لئے مثال ہے ۔ مثلاً سورۃ احزاب پارہ نمبر ۲۱ کہتا ہے ’’ تمہارے لئے محمد ﷺ کی زندگی ہی مثال ہے ۔ ‘‘

اس لئے طالبان کو افغانستان کی حکومت ہاتھ لگی ہے تو وہ اسے ٹھیک سے چلائے اپنے ملک میں کسی دوسرے ممالک ، جیسے پاکستان یا چین کا دخل نہ ہونے دے۔ ہندوستان جیسے ترقی یافتہ یعنی ترقی میں مدد کرنے والے ملکوں کے اپنا دروازہ کھولیں۔ اگر چین یا پاکستان افغان کی شرط پر ترقیاتی منصوبہ لے کر آتے ہے تو اس کا استقبال کریں۔ طالبان حقیقت میں مسلمانوں کے رہنما ہیں تو عورتوں کو مذہبی طور پر جو حق حاصل ہے ، اسے دیں اور ماڈرن معاشرے میں جینے کا ماحول تیار کرے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر جیسے چین ، میانمار میں ہورہے غیر انسانی ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ شریعت قانون کے بنا پر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ تبھی طالبان کی قبولیت افغانستان میں ہوگی۔ نہیں تو طالبان کو پاکستانی فوج کا آپریشن ہی مانا جاتا رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »