رد عمل میں شدت پسندی فائدہ صرف سماج کے دشمنوں کو!

 رد عمل میں شدت پسندی فائدہ صرف سماج کے دشمنوں کو!

انسانی تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ جب جب مذہب اور عقیدے کو لے کر حالات نازک ہوئے ہیں، اس کے اثرات سماج میں تناؤ، نفرت اور تصادم کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں۔ برصغیر کی سرزمین، خاص طور پر بھارت ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کی مثال رہی ہے، جہاں مختلف مذاہب اور ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی شناخت کو برقرار رکھتی آئی ہیں۔ مگر حال ہی میں اتر پردیش کے کانپور میں”I love Mohammad”کے بینر کو لیکر مچے ہنگامے نے ملک بھر میں سماجی ہم آہنگی پر سوالہ نشان لگا دیا ہے۔

اگر کوئی شخص I love Mohammad” لکھتا ہے تو وہ صرف اپنے مذہبی جذبات اور ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح کا عمل بھارتی آئین کی دی ہوئی مذہبی آزادی کے مطابق ہے، جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 25 میں دی گئی ہے۔

سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات اکثر سماج میں تناؤ اور مخالفت کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ کانپور میں بھی ماحول گرمایا اور احتجاج شروع ہو گیا۔ مگر ہمیں اس موقع پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا کہ کیا اس طرح کے احتجاج کے طریقے ہماری جدوجہد کو کامیابی کی طرف لے جائیں گے یا مزید بدنامی اور بے چینی پھیلائیں گے؟ اسلام اور قرآن کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ صبر، حکمت اور پرامن جدوجہد ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (سوره حجرات آیت نمبر 10 ) یعنی ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔” اس آیت میں ہمیں اتحاد اور بھائی چارے کی تعلیم دی گئی اور تفرقے سے بچنے کی ہدایت دی گئی اگر ہم ہر نا انصافی پر جذباتی رد عمل دیں اور پرتشدد احتجاج کریں تو ہم دراصل اسی تفرقے کو بڑھاوا دیں گے جس سے دشمن طاقتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ 

اسلام کی بنیاد امن اور سکون پر ہے۔ “اسلام” لفظ ہی امن سے نکلا اور نبی کریمؐ کی پوری زندگی ،امن صلح اور بھائی چارے کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے مکہ کے ابتدائی دور میں ظلم و ستم سہا، آپ کے ساتھیوں کو ستایا گیا، یہاں تک کہ کچھ شہید کر دیے گئے، مگر آپ نے صبر اور حکمت کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ نے دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ہمیشہ امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ فتح مکہ اس کا سب سے روشن ثبوت ہے۔ جب آپ نے مکہ فتح کرنے کے بعد اپنے دشمنوں کو عام معافی دے دی اور فرمایا: “جاؤ، آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔” یہی تعلیم ہمیں کانپور کے واقعے جیسے مواقع پر اپنانی چاہیے ۔

نبی کریمؐ نے ایک حدیث میں فرمایا: (بخاری و مسلم) یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں سیکھنا چاہیے کہ کسی بھی احتجاج یا رد عمل میں ہماری زبان اور ہمارے ہاتھ دوسروں کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ نہ بنیں۔

اس موقع پر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سماج کے دوسرے طبقوں کو یقین دلائیں کہ “I love Mohammad کہنا یا لکھنا کسی اور مذہب یا عقیدے کی توہین نہیں ہے۔ اکثر ایسے واقعات کے بعد نوجوان جذبات میں آ کر سڑکوں پر نعرے بازی کرتے ہیں۔ احتجاج کرنا جمہوری حق ہے لیکن یہ تبھی معنی رکھتا جب وہ پرامن اور تعمیری ہو۔ توڑ پھوڑ، آگ زنی اور تشدد سے ہماری آواز دنیا تک نہیں پہنچ سکتی، بلکہ اس سے ہماری جدوجہد بدنامی کا شکار ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے احتجاج کو ایسا بنانا ہو گا جس میں حکمت بھی ہو اور اثر بھی۔ جلسوں، علمی مباحثوں، مضامین اور پرامن مظاہروں کے ذریعے ہم اپنا موقف زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔

 کانپور کے واقعے کے تناظر میں حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کریں اور مذہبی جذبات کے اظہار کو جرم نہ بنائیں۔ مگر اس کے باوجود ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم صبر اور سکون کا راست نه چھوڑیں۔نبی کریمؐ کی سیرت ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ ظلم کے باوجود صبر کیا جائے اور امن کو قائم رکھنے کی کوشش کی جائے۔ آپ نے فرمايا: ( معجم كبير) یعنی اللہ کے نزدیک سب سے محبوب انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اگر ہم اپنے عمل اور ردعمل کے ذریعے دوسروں کے لیے بھلائی اور سکون کا ذریعہ بنیں گے تو یہی اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔

قرآن میں اللہ فرماتا ہے : اللہ انصاف اور احسان کا حکم دیتا اس آیت کو اپناتے ہوئے ہمیں یہ پیغام دینا چاہیے کہ انصاف کی پامالی کے باوجود ہم امن کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے۔ کانپور کا واقعہ ہمارے لیے ایک امتحان کی طرح ہے۔

اگر ہم نے جذبات پر قابو رکھا اور صبر و حکمت کے ساتھ اپنی بات رکھی تو یہی ہماری کامیابی ہو گی۔ لیکن اگر ہم نے رد عمل میں تشدد اور نفرت کا راستہ اپنایا تو یہ سماج کے دشمنوں کی کامیابی ہو گی۔

سب سے زیادہ ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو یہ سکھائیں کہ اسلام کا اصل پیغام محبت ،امن اور بھائی چارہ ہے۔ I love Mohammad کہنے والاصرف اپنے نبی سے محبت کا اظہار کرتا ہے، اور یہی محبت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ہمیں بھی آپ کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہو گا۔ قرآن میں اللہ نبیؐ کے بارے میں فرمایا: اے نبی! ہم نے آپ کو پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اگر ہم  واقعی محبتِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں تو میں بھی رحمت للعالمين کی سیرت پر عمل کرنا ہو گا۔

نتیجہ یہی ہے کہ کانپور کا واقعہ قابلِ مذمت ہے، لیکن اس کا جواب ہمیں امن، سکون اور بھائی چارے کو فروغ دے کر دینا ہو گا۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے، یہی قرآن و حدیث کا پیغام ہے اور ہمارے ملک اور یہی سماج کی بھلائی کا راستہ ہے ۔

آئین، عدلیہ اور تعلیماتِ نبیؐ: امن، بھائی چارہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »