ردعمل دینے سے پہلے حقیقت کو پہچان لیں

ردعمل دینے سے پہلے حقیقت کو پہچان لیں

انسانی معاشرے میں معلومات اور ابلاغ کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ اس کے بارے میں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں اور فوراً اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں جب معلومات کا پھیلاؤ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک ذرائع سے پل بھر میں ہو جاتا ہے، تب سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق دھندلاہو جاتا ہے۔ اکثر کسی چھوٹی سی بات کو توڑ مروڑ کر یا ادھوری معلومات کے ساتھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں الجھن، تناؤ اور تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ردعمل دینے سے پہلے حقیقت کو پرکھنا بے حد ضروری ہے۔

کانپور نگر کا حالیہ واقعہ اس کا براہ راست ثبوت ہے۔ یہ معاملہ آئی لو محمد” لکھے ایک بینر سے جڑا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی، تو کئی لوگوں نے اسے سیاسی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور پوسٹس اس طرح وائرل ہوئیں جیسے اس بینر کے سبب پولیس نے کارروائی کی ہو۔ فطری بات تھی کہ عام عوام میں بے چینی پھیل گئی اور بہت سے لوگوں نے بغیر حقیقت جانے ردعمل دینا شروع کر دیا۔

جب اصل حقیقت سامنے آئی تو پتہ چلا کہ سچ بالکل الگ تھا۔ تھانہ راوت پور کے علاقے سید نگر محلہ سے بارہ وفات کا ایک روایتی جلوس نکلنا تھا۔ ہر سال کی طرح یہ جلوس طے شدہ مقام اور راستے سے ہی نکالاجاتا رہا ہے، لیکن اس بار محلے کے کچھ لوگوں نے روایتی مقام سے ہٹ کر ایک نئے مقام پر ٹینٹ لگایا اور اس پر آئی لو محمد” کا بینر لگا دیا۔ اس پر محلے کے ہی دوسرے فریق نے اعتراض ظاہر کیا۔ تنازعہ کی اطلاع ملتے ہی راوت پور تھانے کی پولیس موقع پر پہنچی تو ٹینٹ لگانے والوں نے بھی پولیس کے سامنے اپنا احتجاج درج کروایا۔ ماحول کچھ وقت کے لیے کشیدہ ہو گیا، لیکن پولیس نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور دونوں فریقین سے بات چیت کرکے رضامندی حاصل کی۔ آخرکار ٹینٹ اور بینر کو روایتی مقام پر لگوا دیا گیا۔

اس واقعہ پر پولیس ڈپٹی کمشنر ،ویسٹ جناب دنیش تریپاتھی نے ٹوئٹر پر صاف الفاظ میں کہا کہ:

تھانہ راوت پور میں سید نگر محلہ سے بارہ وفات کا ایک روایتی جلوس نکلنا تھا۔ محلہ کے کچھ لوگوں کے ذریعے روایتی مقام سے الگ ایک جگہ پر ایک ٹینٹ لگا دیا گیا اور اس پر آئی لو محمد کا ایک بینر لگا دیا گیا، جس پر ایک فریق کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔ موصولہ اطلاع پر راوت پور تھانے کی پولیس جب پہنچی تو ٹینٹ لگانے والوں کی طرف سے بھی پولیس کے سامنے احتجاج کیا گیا۔ بعد میں دونوں فریقوں کی رضامندی سے ٹینٹ اور آئی لو محمد کا بینر روایتی مقام پر لگوا دیا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ آئی لو محمد لکھنے یا بینر لگانے پر کوئی ایف آئی آر نہیں کی گئی، بلکہ روایتی مقام سے ہٹ کر نئے مقام پر بینر لگانےاور جلوس نکالنے کے دوران اس فریق کے ذریعہ دوسرے فریق کا بینر پھاڑنے پر ایف آئی آر کی گئی ہے۔ گزارش ہے کہ اس معاملے میں کوئی غلط فہمی نہ پھیلائی جائے۔”

پولیس کمشنریٹ کانپور نگر نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ آئی لو محمد لکھے بورڈ پر نہیں، دوسرے فریق کا پوسٹر پھاڑنے کے باعث رپورٹ درج کی گئی ہے۔ ان بیانات سے واضح ہو گیا کہ تنازعے کی وجہ بینر نہیں بلکہ پوسٹر پھاڑنے کا واقعہ تھا۔

مذہبی رہنماؤں اور سماجی تنظیموں نے بھی آغاز سے ہی تحمل اور متوازن نقطہ نظر اپنایا۔ قاضی شہر کانپور حافظ و قاری عبد القدوس صاحب نے ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ:

اپنے اپنے علاقوں پر نظر رکھیں اور بچوں کو جلوس نکالنے سے روکیں اور منع کریں کیونکہ پولیس بھی اب سخت نظر آ رہی ہے۔ اگر اسی طرح حالات رہے تو ہمارے شہر کے امن و امان کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا ہر علاقے کے ذمہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ گہری نظر رکھیں۔ ساتھ ہی اماموں اور متولیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ چھوٹے یا بڑے بچے قطعا طور پر کوئی جلوس نہ نکالیں، انہیں سختی سے منع کریں۔ اگر منع کریں گے تو امن و امان رہے گا، ورنہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور کوئی بھی اپنے ہاتھ میں قانون نہ لے اور اللہ نہ کرے اگر کہیں کوئی بات ہوتی ہے تو ہم لوگ موجود ہیں، افسران موجود ہیں، ان سے رابطہ کریں، ان شاء الله خیر ہو گی۔ کانپور کے افسران کے ساتھ ہماری کئی بار سنجیدگی کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے، ہمارے سامنے ساری چیزیں رکھی گئی ہیں اور آئی لو “محمد” کے نام پر ایف آئی آر کی جو چرچا چل رہی ہے، آئی لو “محمد” کے نام پر ایف آئی آر تو نہیں ہے، بینر پھاڑنے کے نام پر ہے ایف آئی آر ہے۔ ہم نے پڑھا ہے اور تفصیل سے دیکھا ہے، بدگمانی ہے لوگوں کو اور اس کی وضاحت عہدیداران اور پولیس افسران نے مجھے دی ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

در حقیقت مذہبی عقیدہ ہر فرد کی زندگی کا ایک گہرا جز ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی تنازعہ مذہب سے جڑتا ہے تو لوگ جذباتی طور پر فوراً متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افواہیں اور ادھوری معلومات سب سے پہلے مذہبی علامتوں اور نعروں کو نشانہ بناتی ہیں۔ “آئی لو محمد” کے بینر کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ عقیدت اور محبت کے جذبے سے لگایا گیا یہ بینر غلط طریقے سے پیش کر کے تنازعے کی وجہ بنا دیا گیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مذہب سے جڑے کسی بھی معاملے پر خاص احتیاط برتنی چاہیے۔

آج کے دور میں ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی خبر پر ردعمل دینے سے پہلے اس کی سچائی کو پرکھے۔ اگر کوئی خبر سوشل میڈیا پر ملتی ہے تو اس کا باقاعدہ اور مستند ذریعہ تلاش کریں، پولیس اور انتظامیہ کے بیانات پر توجہ دیں، مذہبی رہنماؤں اور بزرگوں کی اپیل کو سنیں اور سب سے بڑھ کر خود افواہ پھیلانے سے بچیں۔ یہی ایک ذمہ دار شہری کا فرض ہے۔

کانپور کا یہ واقعہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ردعمل دینے سے پہلے سچ جاننا ضروری ہے۔ آئی لو محمد” لکھے بینر پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی، اصل تنازعہ صرف پوسٹر پھاڑنے کا تھا۔ لیکن افواہوں اور غلط فہمیوں نے اسے ضرورت سے زیادہ بڑا بنا دیا۔ معاشرے کی بھلا ئی اسی میں ہے کہ ہم افواہوں سے دور رہیں، صبر و سمجھداری سے کام لیں اور بھائی چارے و امن کو ترجیح دیں۔ سچ جان کر ہی ردعمل دینا ہی ایک سچے شہری اور ذمہ دار انسان کا فرض ہے۔ مصنف: محمد شہاب دہلی میں مقیم اسلامی اسکالر اور آزاد اسلامی مفکرہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »